Explore the World

Sunday, September 11, 2011

فقہ اسلامی کی تدوین ایک جائزہ

ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے کئی مراحل گذرچکے ہیں۔

فقہ اسلامی کا پہلا دوراور اس کی خصوصیات

آپ کی رسالت ونبوت سنہ۶۱۰ء سے شروع ہوتی ہے اور وفات سنہ۱۰ھ مطابق سنہ۶۳۲ء میں ہوئی ،اس دور میں فقہ اسلامی کا سرچشمہ قرآن تھا، آپ کے ارشادات اور آپکی مکی ومدنی زندگی کے حالات وواقعات قرآن کریم کی تشریح کی حیثیت رکھتے تھے،الغرض دورِنبوت میں فقہ اسلامی کا تمام ترمدار وحی پر تھا، چاہے وحی متلو قرآن کریم ہو یاغیرمتلو احادیث مبارکہ۔

(مقدمہ درمختار:۱/۶)

آپ کے دور میں موجودہ زمانہ کی طرح فقہ اسلامی مدون نہیں ہوا تھا، جس طرح بعد میں فقہاء کرام نے ہرمسئلہ کی تحقیق وتفتیش کرکے اس کے ارکان وشرائط اور آداب وسنن کی وضاحت کردی ،یہ تحدید زمانۂ نبوت میں نہیں ملتی ہے، آپ سے جو عمل جس طور پر صادر ہوتا، صحابہ کرام بعینہ بغیر کمی وبیشی کے اپنالیتے، مثال کے طور پر آپ کو جس طرح وضو کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا صحابہ نے اسے اپنالیا،انہوں نے اس بات کی تحقیق وجستجو نہیں کی کہ وضو میں کتنے ارکان اور کیا کیا ہیں؟ نماز میں کون فرض ہے؟ کون واجب اور کون سنت ہے؟۔

(تاریخ الفقہ الاسلامی:۴۱)

آپ نے اپنے دورمیں قرآن کریم کے علاوہ دیگر چیزو ں کو لکھنے سے منع فرمادیا تھا (حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۴۰) حتی کہ احادیثِ مبارکہ کو تحریر کرنے سے بھی روک دیا تھا؛ تاکہ قرآن کریم کا غیرقرآن سے اختلاط نہ ہوجائے اور سابقہ امتوں کی طرح آسمانی کتابوں کا صلحاء اور علماء کے اقوال سے اختلاط ہوکر ان کی روحانیت اور اعجازی شان فنا نہ ہوجائے اور نہ محرف ہوجائے؛ چونکہ دورِ نبوت میں کاغذات اور پریس وغیرہ کی موجودہ سہولت نہ تھی ؛بلکہ ہڈیوں چمڑوں اور پتوں کو تحریر کے کام میں لاتے تھے ،اس لیے قوی اندیشہ تھا کہ قرآن غیرقرآن سے خلط ملط ہوکر ضائع نہ ہوجائے؛ اگرچہ انفرادی طور پر جمع قرآن کے علاوہ جمع حدیث کے تعلق سے بھی کام ہوا۔

(مسلم:۲/۲۱۴)

آپ کی ممانعت کی وجہ سے حدیث وفقہ کی باضابطہ تدوین کا آغاز آپ کے دور میں نہ ہوسکا۔

فقہ اسلامی کا دوسرا دور اور اس کی خصوصیات

یہ خلفاءِراشدین اور کبارِ صحابہ کرامؓ کا دور ہے ،نبی کریم کی وفات کے بعد سنہ ۱۱ھ سے خلفاء راشدین اور دیگر کبار صحابہ کا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دور سنہ۴۰ھ میں اختتام کو پہونچتا ہے، آپ کی وفات کے بعد فتوحات اسلامی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، بالخصوص حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں توہرروز کوئی نہ کوئی علاقہ مملکتِ اسلامیہ میں داخل ہو، صحابہ کرام "بلغوا عنی ولو آیہ" (ابوداؤد:۲/۵۱۳) کے تحت اسلام کا پیغام پہونچانے کے لیے چہاردانگِ عالم میں پھیل گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دوسری اقوام سے اختلاط بڑھتا گیا، بعض عجمی اقوام دامن اسلام میں آئیں اور نئے نئے مسائل وواقعات درپیش ہونے لگے ،صحابہ کرامؓ کو ان حوادث اورواقعات کا حکم شرعی معلوم کرنے اور جاننے کی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ خلفاءراشدین اور کبارِ صحابہ جو فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے تھے ،قرآن وحدیث کی طرف رجوع ہوئے اور قرآن وحدیث کے قواعد وجزئیات کو سامنے رکھ کراحکام شرعی بیان کرنا شروع کیا، جو حکم قرآن وحدیث میں مذکور نہ ہوتا تو آپس میں مشورہ کرتے اور اجتہاد واستنباط سے کام لیتے، اس شورائی اور اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ بہت سے مسائل حل ہوئے۔

StatCounter